maya ali new drama

 

مایا علی: پاکستانی ڈراموں میں اب ’خواتین کو کمزور کے بجائے طاقتور دکھانا چاہیے‘

اکستانی اداکارہ مایا علی کا کہنا ہے کہ ایک طرف سوشل میڈیا پر اُن کی اپنے ایسے فینز سے بات ہوتی ہے جو انھیں کہیں باہر مل نہیں پاتے، لیکن دوسری جانب ایسے بھی لوگ ہیں جو ’آپ کی ہر بات پر صرف تنقید کرتے رہتے ہیں۔‘

بی بی سی اُردو کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی اداکار یا اداکارہ کا کوئی ڈرامہ چل رہا ہوتا ہے، تو ایسے ایسے لوگ اس پر کمنٹس دیتے ہیں جن کا اداکاری سے دور دور تک تعلق نہیں۔‘

’ایسے کمنٹس دیکھ کر کبھی آپ ٹینشن میں چلے جاتے ہیں، ڈپریشن بھی ہونے لگتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب آپ محنت کرتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں یہ نہیں کہہ رہی کہ لوگ تنقید نہ کریں، لیکن اگر اس تنقید سے ہمیں کچھ سیکھنے کو ملے اور اپنے آپ کو بہتر کرنے کا موقع ملے تو زیادہ بہتر ہے۔ کچھ لوگ اچھے الفاظ میں سوشل میڈیا پر بات کرتے ہیں لیکن زیادہ تر ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو سیدھا جا کر دل پر لگتے ہیں۔‘

مایا کا کہنا تھا کہ لوگوں کو چاہیے کہ ’کہانی سننے سے پہلے اپنا فیصلہ نہ سُنایا کریں۔

’اس میں کسی کا بھی فائدہ نہیں۔ جن لوگوں کے لیے ہم دن رات ایک کر کے کام کرتے ہیں، اگر وہ بھی ججمینٹل ہو جائیں تو کیا فائدہ؟ میری درخواست ہے کہ کہانی سننے سے پہلے فیصلہ نہ سنائیں۔ اگر آپ کسی کا دُکھ کم نہیں کر سکتے تو اس کو بڑھائیں بھی نہیں۔‘

مایا علی کا شمار پاکستان کی ان اداکاراؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے ٹی وی کے ساتھ ساتھ فلموں میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ سنہ 2018 میں ’طیفا ان ٹربل‘ اور سنہ 2019 میں ’پرے ہٹ لوو‘ میں کام کرنے والی اداکارہ ان دنوں شعیب منصور کی نئی فلم کی شوٹنگ میں مصروف ہیں۔

اس دوران انھوں نے چار سال کے عرصے کے بعد ایک ٹی وی ڈرامے میں کام کیا ہے، جس میں ان کے ساتھ شہریار منور بھی ٹی وی پر کم بیک کریں گے۔

مایا علی کا کہنا تھا کہ انھوں نے کبھی ٹی وی کو الوداع نہیں کہا تھا۔ دراصل ٹی وی ہی ان کی ’پہلی محبت‘ ہے اور شاید اسی وجہ سے وہ آئی ڈریم کے ڈرامے ’پہلی سے محبت‘ کے ذریعے ٹی وی پر کم بیک کر رہی ہیں۔

مایا کے لیے چار سال بعد ٹی وی پر واپسی کی بڑی وجہ ہدایتکار انجم شہزاد تھے۔

اداکارہ مایا علی کا کہنا تھا کہ جب وہ ’طیفا ان ٹربل‘ اور ’پرے ہٹ لوو‘ میں کام کر رہی تھیں، تو ان کا تمام فوکس فلم پر اور اپنے کردار پر تھا اور اسی وجہ سے وہ ٹی وی سے دور رہیں۔

’طیفا ان ٹربل ابھی آئی نہیں تھی کہ مجھے پرے ہٹ لوو مل گئی جس کی وجہ سے ٹی وی سے دوری لمبی ہو گئی۔ کم بیک کے لیے میں کوئی اچھا رول تلاش کر رہی تھی، ایسے میں جب مجھے عبداللہ سیجا نے کال کی اور بتایا کہ ان کا ڈرامہ ’پہلی سی محبت‘ فائزہ افتخار نے لکھا اور انجم شہزاد اسے ڈائریکٹ کر رہے ہیں، تو میں نے فوراً حامی بھر لی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اپنے دس سالہ کیریئر میں انھوں نے ’رنگ لاگا‘ اور ’خانی‘ جیسے ڈراموں کے ہدایتکار کے ساتھ کبھی کام نہیں کیا، اس ڈرامے کے ذریعے ایک تو ان کی یہ خواہش پوری ہو گئی اور دوسرا اچھی سکرپٹ کی جو تلاش تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔

مایا علی نے پہلی سی محبت کی سکرپٹ کی تعریف کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ فائزہ افتخار نے بہت خوب تحریر کیا ہے، انھوں نے دس بارہ اقساط ایک ہی رات میں پڑھ لی تھیں۔

’اس ڈرامے میں ساس بہو کا ذکر ہے نہ لڑائی جھگڑے۔ نہ ہی یہ کسی افیئر کے گرد گھومتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’کہانی دیکھی اور سُنی سُنی اس لیے لگتی ہے کیونکہ یہ پہلی سی محبت ہے، اور پہلی سی محبت سب کرتے ہیں، کسی کو مل جاتی ہے، اور کسی کی ساری زندگی دل میں رہ جاتی ہے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ میں نے اچھی سکرپٹ کا جتنا انتظار کیا تھا، مجھے اتنی ہی اچھی سکرپٹ ملی۔‘

خواتین کو اب کمزور کے بجائے طاقتور دکھانا چاہیے

وہ سمجھتی ہیں کہ یہاں ٹی وی ڈراموں میں عورت کو جتنا کمزور اور مظلوم دکھایا جاتا ہے دراصل وہ اس سے کہیں زیادہ مضبوط اور طاقتور ہیں۔

انھوں نے سوال کیا کہ ’پاکستانی ٹی وی (ڈراموں) پر عورت کو رونے کے علاوہ کچھ اور بھی کرتے کیوں دکھایا نہیں جاتا؟‘

اپنی مثال دیتے ہوئے وہ بتاتی ہیں کہ ’میری ماں جو میرے لیے رول ماڈل ہیں، وہ بہت مضبوط خاتون ہیں۔ میری خالہ اور میرے آس پاس کی خواتین بھی کوئی کمزور نہیں۔ لیکن ہمارے ڈراموں میں ایسی عورت شاید اس وجہ سے نہیں دکھائی جاتی کیونکہ عوام کو عورت کا رونا یا اسے روتا دیکھ کر اچھا لگتا ہے۔‘

مایا علی کا مزید کہنا تھا کہ ’جس ڈرامے میں عورت روتی نہیں، وہ لوگوں کو پسند نہیں آتے۔‘

’میری پروڈکشن ہاؤسز سے بھی گزارش ہے کہ عورت کو تھوڑا مضبوط تو دکھائیں، عورت کو تھوڑا مضبوط تو دکھائیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ گھر سے نکلی تو رونے لگی۔ گھر میں آئی تو بھی رونے لگی۔ کوئی اس کی وجہ پر تو جائے کہ وہ روتی کیوں ہے۔‘

مایا علی پوچھتی ہیں کہ ’اگر کسی اچھے ڈرامے کی ریٹنگ نہیں آتی تو اس کا قصوروار کون ہو گا۔ سوسائٹی، لوگ یا بنانے والے۔‘

’وقت بدل رہا ہے اور دنیا بھر میں طاقتور خواتین پر فلمیں بن رہی ہیں۔ شعیب منصور صاحب کی فلم ’ورنہ‘ آئی تھی۔ اس میں بھی ایک خاتون کو دکھایا جو تکلیف میں تھی لیکن مضبوط بھی تھی۔ مجھے امید ہے کہ آئندہ بھی ایسا کام ہو گا جس میں عورت کو مضبوط دکھایا جائے گا۔‘

گذشتہ سال مایا علی کی فلم ’پرے ہٹ لوو‘ آئی تھی جس میں ان کے سامنے ہیرو شہریار منور تھے۔

’پہلی سی محبت‘ میں بھی مایا علی اور شہریار منور کی جوڑی آمنے سامنے ہو گی۔ یہ بات اس لیے بھی قابل ذکر ہے کیونکہ یہ دونوں اداکاروں کا ٹی وی پر کم بیک پراجیکٹ ہے۔ تاہم مایا علی کا کہنا ہے کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ڈرامے میں شہریار ان کے مدمقابل ہیرو ہوں گے۔

اپنے ساتھی اداکار کے بارے میں بات کرتے ہوئے مایا علی کا کہنا تھا کہ ’شہریار منور ایک اچھے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین کو سٹار اور پروڈیوسر بھی ہیں۔‘

بقول مایا علی ’شہریار کے ساتھ میری کیمسٹری لوگوں کو بہت پسند ہے، میری اور ان کی دوستی بہت جلدی ہو گئی تھی۔‘

’جب ہم پرے ہٹ لوو کر رہے تھے تو اسی دوران ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ ایکشن ری ایکشن کا کام ہوتا ہے۔ دونوں سمجھ گئے تھے کہ دوسرا کیا کرے گا اور اسی وجہ سے ہمارا کام آسان ہو گیا تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ساتھ ڈرامہ کریں گے۔ ’یہ اندازہ ضرور تھا کہ آگے چل کر ایک اور فلم کرلیں گے، لیکن ڈرامے میں ساتھ کاسٹ ہونا غیر ارادی تھا۔‘

’میں نے پہلی سی محبت کرنے کی حامی ہدایتکار کی وجہ سے بھر لی تھی، میرے مدمقابل ہیرو کون ہو گا، اس کا مجھے بعد میں پتا چلا لیکن شہریار کے ہونے کی وجہ سے میرا کام بڑا آسان کام ہو گیا۔‘

’ایک تو وہ اپنے کو ایکٹرز کے ساتھ بہت جلدی ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں، دوسرا خود اپنے ڈائیلاگز تو یاد کرتے ہیں ہی، دوسروں کے بھی یاد کر لیتے ہیں اور جہاں کوئی غلطی ہو، اس کو درست کر لیتے ہیں۔‘

شعیب منصور مایا علی کے ’اردو کے تلفظ پر بھی کام کر رہے ہیں‘

مایا علی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے معروف ہدایتکار شعیب منصور کی فلم، جس میں وہ عماد عرفانی کے مدمقابل نظر آئیں گی، وہ ان کے اب تک کے کام میں ’سب سے الگ ہے۔‘

انھوں نے نے کہا 'شعیب صاحب کی فلمیں کس طرح کی ہوتی ہیں (یہ) سب جانتے ہیں۔ جتنی خوبصورتی سے سوشل ایشوز کو وہ دکھاتے ہیں کوئی اور نہیں دکھا سکتا۔

’ان کی فلم میں کام کرنا میری خوش قسمتی ہے، ان کی فلم پر ہم بات تو نہیں کر سکتے، لیکن اتنا ضرور کہو ں گی کہ اس طرح کی فلم آج تک نہیں بنی ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ اس فلم میں جو کردار وہ کر رہی ہیں، ویسا کردار انھوں نے پہلے کبھی نہیں کیا۔

’شعیب صاحب ان کے اردو کے تلفظ پر بھی بہت کام کر رہے ہیں۔ ایک دو مہینے میں سب کو پتا چل جائے گا کہ فلم کس بارے میں ہے۔‘

پاکستان میں گذشتہ دو سالوں میں شاید دو ہی بڑی فلمیں بنیں جن میں سے ایک کی اداکارہ مایا علی تھیں۔ لیکن اب وہ سینما کے مستقبل کو لے کر بھی فکرمند ہیں۔

ان کے خیال میں کووڈ 19 کی وجہ سے اس سال کوئی بڑی فلم نہیں آ سکی لیکن وہ پُرامید ہیں کہ آنے والا وقت بہتر ہو گا۔

’ہمارے ہاں اور دوسرے ممالک میں بھی فلم انڈسٹری کو نقصان ہوا ہے، بڑی بڑی فلموں کو ریلیز ہونا تھا لیکن اس عالمی وبا کی وجہ سے وہ سب رُک گئی ہیں۔ کوئی او ٹی ٹی پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے فلموں کو روکنا پڑا، اور مجھے امید ہے کہ اس سلسلے میں بھی کوئی حل نکل آئے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ سنیما کی بحالی میں دیر ہے، پر اندھیر نہیں۔ ’لوگوں نے بہت محنت سے فلمیں بنائی ہیں، اور پیسہ لگایا ہے جبکہ کچھ فلمیں تو اب بھی شوٹ پر ہیں۔‘

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...