dramas old ptv

 جہاں نیٹ فلیکس دنیا بھر میں پہلے سے کہیں زیادہ سٹریم ہوا ہے، وہیں اردو زبان کے ڈرامے بھی یادداشت اور انٹرنیٹ کے سہارے دوبارہ زندہ کیے جارہے ہیں اور ان کے ساتھ ہی پی ٹی وی کی جاندار روایت نئی نسل کو منتقل ہو رہی ہے۔

لیکن دیکھنا کیا ہے؟ اس فیصلے کو آسان بنانے کے لیے بی بی سی نے ڈرامے کے نقادوں سے بات کی جن میں سے اکثریت کا کہنا تھا کہ بات کلاسیک کی ہو تو، پاکستان ٹیلی ویژن کا نام ہی کافی ہے۔

پاکستان ٹیلی ویژن کی ڈائریکٹر پروگرامنگ کنول مسعود کا کہنا ہے پی ٹی وی نے لاک ڈاؤن کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پی ٹی وی پر ایک وقت بھی مقرر کیا ہے، جس وقت پرانے ڈرامے نشر کیے جا رہے ہیں۔

جیسا کہ آج کل تنہائیاں چل رہا ہے. ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ٹی وی اپنی آرکائیو کو ڈیجیٹلائز کر رہا ہے۔

وارث

صحافی اور نقاد عمیر علوی پی ٹی وی کی وراثت میں وارث کو نمایاں ترین ڈرامہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ چوہدری حشمت کا کردار ہمیشہ یاد رہ جانے والا کردار ہے۔

ڈرامے کی خاص بات سنسنی اور رومانویت کا امتزاج ہے۔ ڈرامہ وارث کی کہانی اس خطے میں حاکم اور محکوم کے ازلی رشتے کی ایسی کہانی جو چالیس سال گزرنے پر بھی پرانی نہیں ہوئی۔

یاد رہے کہ اس ڈرامے میں ستر سالہ چوہدری حشمت کا کردار ادا کرنے والے محبوب عالم خود اس وقت صرف پینتیس برس کے تھے۔

اس ڈرامہ کو امجد اسلام امجد نے لکھا تھا اور غضنفر علی اور نصرت ٹھاکر نے اس کو ڈائریکٹ کیا تھا۔

عمیر علوی کا کہنا ہے کہ یہ ڈرامہ نہ صرف اپنے وقت کا بہترین ڈرامہ تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ آج کے دور کا بھی بہترین ڈرامہ ہے تو غلط نہیں ہو گا۔

ان کہی

ایک ایسا ڈرامہ جسے خود ساختہ مسکراہٹ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

ڈراموں کی نقاد ملیحہ رحمان کہتی ہیں حسینہ معین کی کہانیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جیسے ہماری اپنی ہی ہوں۔ اس میں ٹمی کا مشہور کردار تھا جس کو جمشید انصاری نےادا کیا۔

شہناز شیخ نے اس ڈرامہ میں ایسا کردار ادا کیا جس کو بعد میں بالی وڈ کی فلموں میں کاپی کیا گیا۔

اس کے علاوہ بہروز سبزواری اور سلیم ناصر بھی اس ڈرامے کا حصہ ہیں ۔اس ڈرامہ میں ایک ہیرو جاوید شیخ تھے جبکہ دوسرے ہیرو شکیل تھے۔

عمیر علوی ان کہی کے کرداروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ لکھاری اور ڈائریکٹر نے ایسے مزے دار کردار بنائے تھے کہ وہ آج تک آپ کو یاد رہتے ہیں۔

اس ڈرامے کی خاص بات یہ ہیں کہ اس میں مزیدار کہانی اور بہت ہی خوبصورت کردار ہیں

سنہرے دن

مزاح سے بھر پور، نوجوانوں کی کہانی اگر آپ نے دیکھنی ہے تو یہ ڈرامہ بہترین ہے۔آئی ایس پی آر کی پروڈکشن میں بنا ڈرامہ سنہرے دن ادارے کی پہلی باقاعدہ پروڈکشن تھی۔

سلیم شیخ نے اس ڈرامے سے اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ اس ڈرامہ کو شعیب منصور نے ڈائریکٹ کیا تھا۔

آئی ایس پی آر نے اس کے بعد ایلفا، براوو، چارلی اور عہد وفا بھی بنائے لیکن اگرآ پ نے صحیح معنوں میں ان دو ڈراموں کا مزہ لینا ہے تو آپ کو سنہرے دن ضرور دیکھنا چاہیے۔ فراز انعام ان تینوں ڈراموں کا حصہ رہے ہیں۔

سنہرے دن کے اس مشہور سین کے بارے میں عمیر علوی بتاتے ہیں جو فراز انعام کا پہلا سین یہ تھا۔

اس سین میں ان کو صوبیدار آ کر کہتا ہے، جنرل صاحب کا پیغام ہے کہ وہ آپ کا سامان لینے نہیں آ سکتے۔ عمیر کہتے ہیں ابھی تو آپ کو یہ ڈائیلاگ شاید سمجھ میں نہیں آئے کیونکہ اس کے لیے آپ کو پورا ڈرامہ دیکھنا پڑے گا۔ 

دھواں

اگر آپ نے ایکشن اور تھرل دیکھنا ہے تو دھواں دیکھا جا سکتا ہے ۔ نوے کی دہائی میں پی ٹی وی پر نشر کیا جانے والا وہ ڈرامہ ہے جس کو اس زمانے میں ہر کسی نے دیکھا ہو گا۔

اس ڈرامے کی ہر قسط میں ایک نئی کہانی ہے۔ عاشر عظیم نے اس ڈرامے کو لکھا اور انھوں نے ہی اس ڈرامے میں کردار بھی ادا کیا۔

بلبلے ڈرامے سے پہلے نبیل کا اگر کوئی بہت مشہور کردار تھا وہ یہی تھا۔ ڈرامے میں نصرت فتح علی خان کا گانا، کسے دا یار نہ وچھڑے، اس ڈرامے کے بعد زیادہ مشہور ہو گیا تھا۔

خدا کی بستی

عامر رضا ڈرامہ نگار ہیں اور ٹی وی پروڈیوسر ہیں۔

ان کا کہنا کہ پاکستان میں بہت اچھے اچھے ڈرامے بنے ہیں، لیکن ان کے خیال میں وہ ڈرامے جو آج کل دیکھے جا سکتے ہیں ان میں خدا کی بستی ایک ایسا ڈرامہ ہے جو ضرور دیکھنا چاہیے۔

اس ڈرامہ کو دو بار ریکارڈ کیا گیا۔ ایک بار اس ڈرامے کی ٹیپس ضائع ہو گئیں تھیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو ایک بار پھر اس ڈرامے کو ریکارڈ کیا گیا۔ خدا کی بستی کا مرکزی کردار نو شا کا ہے۔

یہ ڈرامہ شوکت صدیقی کے ناول پر بنا ہوا ہے، ناول بہت ہی مقبول ہے۔

عامر رضا اس ڈرامے کے بارے میں کہتے ہیں کہ پاکستان میں طبقات کے درمیان جو کشمکش ہے اور تقسیمِ ہندوستان کے بعد جو ایک نئی سوسائٹی جنم لے رہی تھی اس کا بہت ہی عمدہ انداز میں اس ڈرامہ میں تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...