ایک وقت تھا جب پاکستان میں ٹیلی ویژن ڈراموں کو اصلاح اور تربیت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا لیکن پرائیوٹ پروڈکشنز کے آنے کے بعد معاملہ کمرشلزم کی طرف بڑھ گیا اور اصلاح اور تربیت کی جگہ ریٹنگز نے لے لی۔
تاہم کمرشلزم کی اس دور میں بھی گاہے بگاہے چند ایسے ڈرامے سامنے آتے رہتے ہیں جن کا مقصد ناظرین کو کسی ایسے معاملے کے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہوتا ہے جس کے بارے میں وہ پہلے سے جانتے نہ ہوں، اور اگر جانتے بھی ہوں تو اسے نظرانداز کرتے ہوں۔
ڈرامہ سیریل ’سراب‘ میں اداکارہ سونیا حسین ایک ایسی ذہنی مریضہ کا کردار ادا کر رہی ہے جو بیمار تو ہیں، لیکن اُن کے گھر والے اُن کو بیمار نہیں سمجھتے۔
ی بی سی کے لیے خصوصی انٹرویو میں سونیا حسین کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ سال میں وہ ایک ڈرامہ ایسا ضرور کریں جس سے دیکھنے والوں کو کچھ سیکھنے کو ملے اور وہ اپنا طرز عمل تبدیل کرنے کا سوچیں۔
’میرے نزدیک ایک آرٹسٹ ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان مسائل پر بات کریں جن پر لوگ عام طور پر بات نہیں کرتے۔ معاشرے میں جہاں غیر اہم مسائل پر غیر ضروری باتیں ہوتی ہیں، وہیں اہم چیزوں پر بھی ہونی چاہییں، جیسا کہ ذہنی امراض۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ڈپریشن، اینگزائیٹی، سٹریس جیسی بیماریاں ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں لیکن جن کو یہ لاحق ہوتی ہیں ہمارے ہاں انھیں ’پاگل‘ یا ’ایب نارمل‘ قرار دے کر لوگ بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح سکٹزوفرینیا کا معاملہ بھی ہے جس کے بارے میں لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا اور اگر کسی کو گھر میں یہ بیماری ہوتی ہے تو اسے چھپا دیا جاتا ہے ناکہ اس کا علاج کرایا جائے۔
ڈرامہ سیریل سراب میں سونیا حسین نے ایک ذہنی مریضہ کا کردار ادا کیا ہے جو سکٹزوفرینیا کا شکار ہے۔ عام طور پر ہیروئنز اس قسم کا کردار کرنے سے منع کر دیتی ہیں، تاہم سونیا کا کہنا ہے کہ جب انھیں ڈرامہ „’‘ آفر ہوا تو انھیں اس لیے بھی اچھا لگا کیونکہ یہ ڈرامہ پروڈکشن ہاؤس اور چینل ریٹنگز کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کو آگاہی دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
’سکرپٹ پڑھنے کے بعد میں نے سوچا کہ جب ایک چینل اور پروڈکشن ہاؤس اتنا بڑا رسک لے سکتے ہیں تو بطور اداکارہ میرا بھی تو فرض بنتا ہے کہ میں بھی اس کوشش میں اپنا حصہ ڈالوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک ذہنی مریضہ کا کردار نبھانا ان کے لیے چیلنج تو تھا، لیکن ڈرامے کے ہدایتکار محسن طلعت نے ان کا بھرپور ساتھ دیا، جس کی وجہ سے وہ یہ کردار نبھانے میں کامیاب ہوئیں۔
’میرے خیال میں ڈائریکٹر ’کیپٹن آف دی شپ‘ ہوتا ہے، جب وہ اپنے کاندھوں پر ذمہ داری لے لیتا ہے تو ہم ایکٹرز کا کام آسان ہو جاتا ہے، جب میں نے سکرپٹ سائن نہیں کیا تھا تب ہی پروڈکشن ہاؤس اور ہدایتکار نے کہا تھا کہ آپ بے شک ڈرامہ سائن نہ کریں لیکن ایک بار ری ہیب سینٹر جا کر لوگوں سے مل لیں تاکہ آپ کو آئیڈیا ہوجائے کہ کس طرح کا کردار نبھانا ہے۔‘
بقول سونیا حسین جب وہ ری ہیب سینٹر گئیں تو جو انھوں نے وہاں دیکھا، اس نے انھیں یہ ڈرامہ سائن کرنے پر ایک طرح سے مجبور کیا۔
’ایک ری ہیب سینٹر میں میں نے ایک خاتون سے کافی دیر بات کی، انھوں نے مجھے اپنی نوکری اور اپنے علاج کے بارے میں بتایا، میں انھیں دیکھ کر حیران ہوئی کہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو بظاہر بیمار دِکھتے نہیں، لیکن دراصل ہوتے ہیں۔ ہماری ملاقات کے بعد مجھے ڈاکٹرز نے بتایا کہ ان کا علاج جاری ہے اور وہ ایک دماغی عارضے میں مبتلا ہیں، جو وہ کہہ رہی ہیں وہ سب خیالی ہے اور اُن کی اپنی طرف سے بنایا ہوا ہے۔‘
’یہ ساری چیزیں سراب کی سکرپٹ میں تھیں جس کی وجہ سے میں نے اسے کرنے کی ٹھانی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ میرے خیال میں جیسے ہم جسمانی بیماری اور تکالیف کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، اسی طرح ذہنی امراض کے لیے بھی ہمیں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے، اور ڈرامے کے ذریعے ہم نے یہی بتانے کی کوشش کی ہے۔‘
سونیا حسین کا کہنا تھا کہ وہ خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ ان کے حصے میں ’ایسی ہے تنہائی‘ ’میری گڑیا‘ اور ’عشق زہے نصیب‘ جیسے ڈرامے آئے، جو معاشرے کے کسی نہ کسی سنجیدہ موضوع کو اجاگر کرتے تھے۔
مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پروڈیوسروں نے سوچنا چھوڑ دیا ہے کہ کانٹینٹ دینا کیا ہے۔ ان کے نزدیک جو دِکھ رہا ہے وہ بِک رہا ہے، اگر کچرا بھی بک رہا ہے تو چل رہا ہے۔ میرے خیال میں خراب کانٹینٹ دیں گے تو وہی لوگ بھی پسند کریں گے، ضروری ہے کہ ابھی سے لوگوں کی تربیت کریں تاکہ ان کی سوچ وسیع ہو اور ان کا ذہن کھلے۔‘
سونیا حسین کا ایک اور ڈرامہ ’محبت تجھے الوداع‘ اس وقت ٹی وی پر مقبول ہے۔ جب اس ڈرامے کے ٹیزرز چلے تھے تو بہت سے ناظرین نے اسے بالی وڈ کی فلم ’جدائی‘ کا چربہ قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا تھا، اُس وقت سوشل میڈیا پر تنقید اور اب اسی ڈرامے کے حوالے سے تعریف کو سونیا حسین کسی اور ہی نظر سے دیکھتی ہیں۔
’محبت تجھے الوداع کے آغاز میں سوشل میڈیا پر لوگوں نے خوب تنقید کی تھی جس سے دکھ تو ہوا تھا کیونکہ ایک پراجیکٹ بڑی مشکل سے مکمل ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے کتنے لوگوں کے دن رات کی محنت لگی ہوتی ہے، یہ صرف اس میں کام کرنے والے جانتے ہیں۔ جوں جوں ڈرامہ بڑھتا گیا لوگوں کو پسند آتا گیا اور اب وہ اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے تو لوگ اسے پسند کر رہے ہیں۔‘
سونیا حسین نے یہ بھی کہا انھیں ڈرامے کی کہانی پسند آئی تھی جس کی وجہ سے انھوں نے اسے کرنے کی حامی بھری تھی۔
’جب میں نے اس ڈرامے کو پڑھا تھا تو مجھے بہت مزہ آیا تھا۔ یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو اپنے شوہر سے اتنی محبت کرتی ہے کہ اسے یقین ہے کہ اگر عورتوں کے مجمع میں بھی وہ اسے کھڑا کر دے گی تو وہ وہاں سے بھی ’الفت الفت‘ کہتا ہوا آ جائے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ڈرامے کے ذریعے اور بھی کچھ باتیں بتانے کی کوشش کی گئی ہیں۔
’یہ ڈرامہ ہمیں سمجھاتا ہے کہ محبت میں راستہ دینا آپ کی اپنی غلطی ہوتی ہے، یا پھر یہ ہے کہ اگر انسان کے پاس نو چیزیں ہیں تو اسے دسویں کےحصول میں باقی نو کو نہیں بھول جانا چاہیے۔ ہر کوئی وہی چاہتا ہے جو الفت چاہتی ہے، اس لیے میں اسے ایک نارمل لوو سٹوری کہوں گی، مہدی حسن صاحب کے اس گانے سے بہتر اس ڈرامے کی کوئی تشریح نہیں ہو سکتی۔‘
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تیری محفل میں مگر ہم نہ ہوں گے