ہم ٹی وی کی بانی سلطانہ صدیقی 1974 میں سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی سے کریئر کا آغاز کیا، پھر پرائیویٹ پروڈکشن اور پھر پاکستان کا پہلا ایسا انٹرٹینمنٹ چینل بنایا جو سٹاک مارکیٹ میں بھی registered ہے۔
ان کا چینل ہم ٹی وی پاکستان کے سب سے بڑے براڈکاسٹنگ برانڈز میں شامل ہے اور ایشیا سمیت دنیا میں ہر جگہ اردو ڈرامے کے مداح اس کے ناظرین میں شامل ہیں۔ ہم نیوز، ہم مصالحہ، ہم ستارے کے علاوہ ہم مارٹ اور پی آر اور فلم پروموشن کے کئی منصوبے بھی سلطانہ صدیقی کے کاروباری سفر کا حصہ ہیں
bbc kay sath انٹرویو کے دوران بتایا کہ یہی ایک نہیں، وہ کئی قسم کے کاموں میں سرمایہ کاری کرتی رہیں۔
ان میں بھاری مشینری کی فروخت کا کام بھی شامل ہے۔ وہ یہ کام دوسری کمپنیز کے ساتھ مل کر بھی کرتی رہیں۔
I got married at the age of 19, and seven years later, after many compromises from my side, my marriage came to an end. .
سات سالہ شادی نہیں چلی، ایسے میں وہ دور ڈپریشن میں گزرا لیکن ان کا کہنا ہے کہ ماں، بھائیوں اور گھر کے ترقی پسند ماحول نے ہمت بندھائی اور اس دوران پی ٹی وی پر آسامیاں بھی آ گئیں۔ 1974 میں پی ٹی وی میں بطور پروڈیوسر کام کا آغاز کیا۔ کئی پروگرامز کی پروڈکشن کے بعد موسیقی کے معروف پروگرامز کیے اور ڈرامہ سیریل ’ماروی‘ نے انھیں کافی معروف کر دیا۔
ایک قد آور کاروباری شخصیت سے بالعموم یہ سوال کرنے پر محدود سرمایہ، کاروباری پالیسیاں، ملازمین کی بھرتیوں، ملکی معاشی مسائل، بینکوں کی شرائط، جیسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں، لیکن سلطانہ صدیقی نے اس کے جواب میں کہا کہ ان کے لیے عورت ہونا ہی بڑا چیلنج تھا۔
’عورت ہونا ہی بڑا چیلنج تھا، آپ نیزے کی نوک پر چل رہی ہوتی ہیں۔‘
ان کے مطابق عورت ہوں تو آپ کو ہر وقت اپنا آپ ثابت کرنا ہوتا ہے۔ عورت کسی سے بات بھی کر لے تو اعتراض ہوتا ہے۔ کسی دفتر میں کام سے جانا مشکل ہے۔ کام کے ساتھ یہ بھی ثابت کرنا ہوتا ہے کہ آپ بہترین ماں ہیں۔
ایک وسیع کاروبار کی خود مختار، بارعب ’باس‘ کو اس وقت میں نے یہ کہتے سنا کہ عورت کو مرد کی ضرورت رہتی ہے، چاہے وہ باپ ہو، بھائی ہو یا بیٹا ہو۔
سلطانہ صدیقی کے لیے یہ سب یوں ممکن ہوا کہ ان کے خاندان نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور پھر انھوں نے دفتر بھی گھر پر ہی بنا لیا تاکہ بچے بھی نظر انداز نہ ہوں۔
سلطانہ صدیقی نے پی ٹی وی میں کام کے دوران ہی پرائیویٹ پروڈکشنز بنانی اور بیچنی شروع کیں۔ اس وقت وہ واحد خاتون تھیں جو یہ کام کر رہی تھیں۔ تب انھوں نے سان فرانسسکو میں جا کر ڈرامہ شوٹ کیا جو بڑی بات تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ مارکیٹنگ اور فنانس میں کمزور تھیں تو تب اُنھوں نے ایور ریڈی جیسی کمپنیز کے ساتھ کام کیا۔ پھر ان کے بیٹے درید اور بہو مومل نے ان کے ساتھ مل کر یہ ذمہ داری بانٹ لی۔ اور پاکستان میں پرائیویٹ چینلز آنے کے بعد بیٹے کے ساتھ مل کر چینل شروع کر لیا۔
یہ سوال کیسے نہ کیا جاتا کہ یہ والی عورت ٹی وی کی سکرین پر کرداروں میں نظر کیوں نہیں آتی۔ خود بہو کے ساتھ بزنس کرنے والی سلطانہ صدیقی ڈراموں میں ساس اور بہو کو باورچی خانے میں محدود، خاندانی سیاست میں مصروف کیوں دکھاتی ہیں؟
سلطانہ صدیقی نے اس بات سے اتفاق کیا بھی اور نہیں بھی۔ کہتی ہیں وہ خود یہ سوچتی ہیں کہ ایسی عورت سکرین پر کیوں نہیں ہے لیکن ساتھ ہی اپنے چینل کے دفاع میں کہا کہ وہاں گھریلو سیاست کم ہے۔ مثال دیتے ہوئے ’کنکر‘ اور ’زندگی گلزار ہے‘ جیسے ڈراموں کا ذکر کیا جہاں ساس روایتی تھی نہ بہو، اور ان کے مطابق اور بھی کئی ایسے ڈرامے ہیں جہاں وہ عورت کو بالآخر اپنے لیے لڑتا ہوا دکھاتی ہیں۔
خواتین کو مضبوط بنانے کے ضمن میں ہم ٹی وی میں خواتین کو ملازمتیں دینے کی پالیسی کا بھی بتایا جہاں اُن کے مطابق 30 فیصد ملازمتیں خواتین کو دینے کی پابندی ہے۔
ڈرامہ اب ٹی وی کی سکرین تک محود نہیں رہ گیا یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر چلتا ہے اور اس کے بعد بھی نشر مکرر کے حقوق بیچے جاتے ہیں۔
فنکار اور لکھاری کو اعتراض ہے کہ رائیلٹی پر تمام اجارہ داری پروڈیوسر کی ہے، اس میں ان کا حصہ بھی شامل ہونا چاہیے جیسا کتابوں اور موسیقی کی دنیا میں ہوتا ہے۔
سلطانہ صدیقی کا اس کے جواب میں کہنا ہے کہ وہ رائیلٹی کے اس حق کو تسلیم کرتی ہیں۔ اُن کے مطابق اس کے لیے معاہدہ طے کرتے ہوئے بات کر لینی چاہیے اور معاوضہ اسی حساب سے مانگنا چاہیے۔