ڈرامہ سیریل ’ثبات‘ کی بات کریں ’جلن‘ کی یا پھر اُن کے ماضی میں کیے جانے والے ڈراموں کی پاکستانی اداکار محمد احمد زیادہ تر ڈراموں میں ایک شفیق والد اور دوست کا کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مگر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہر ڈرامے میں اُن کو آخری قسط سے پہلے ہی مار دیا جاتا ہے؟
اس سوال پر ہنستے ہوئے محمد احمد نے جواب دیا کہ ’اب تو یوں ہوتا ہے کہ جب بھی مجھے کوئی آفر آتی ہے تو میں یہ سوال کرتا ہوں مرنا کون سی قسط میں ہے۔‘
بی بی سی کے لیے صحافی براق شبیر کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا دراصل جب آپ نے ہیروئین کو بہت زیادہ مظلوم بنانا ہو، تو اُس کے باپ کو ضرور مارا جاتا ہے اور پہلا گلا باپ کا ہی کٹتا ہے۔
محمد احمد کہتے ہیں کہ جتنی بھی فلمیں اور ڈرامے آپ دیکھیں گے جن میں ہیرو یا ہیروئین وفات پا جاتے ہیں تو لوگ دلگرفتہ ہو جاتے ہیں۔ ’دُکھی اختتام زیادہ یاد رہ جاتا ہے۔۔۔
محمد احمد اصل زندگی میں بیٹیوں کے والد ہیں اور اس حقیقت کی چھاپ ڈراموں میں ان کے کردار پر بھی نظر آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ اگر میں بیٹیوں کا باپ نہ ہوتا تو شاید وہ بات سکرین پر بھی نظر نہ آتی اور میں اتنا پراگریسیو نہ ہوتا۔‘
احمد کے مطابق انھوں نے اپنی زندگی میں کوئی جائیدادیں نہیں بنائیں اور پیسہ نہیں جوڑا کیونکہ وہ اپنی بیٹیوں کو اچھے سے اچھی تعلیم فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
’میری اور میری بیوی کی کوشش یہی رہی کہ بیٹیاں اچھی جگہوں پر پڑھیں اور اچھی تعلیم حاصل کریں۔ تو اس وجہ سے وہ میری شخصیت میں آ گیا اور سکرین پر وہ نظر آتا ہے۔ میری نظر میں بیٹیوں کے لیے زیادہ عزت ہے بانسبت بیٹوں کے۔ بیٹیاں جب چلی جاتی ہیں اور پھر جب وہ آپ کو یاد کرتی ہیں تو آپ کو بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ یہ ہمیں بھولی نہیں ہیں، اب بھی یاد رکھتی ہیں۔‘
ٹائپ کاسٹ یا ایک جیسے کردار ادا کرنے کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہے بھی تو انھیں کوئی شکایت نہیں ہے۔ ’ہاں میں مختلف رول کرنا چاہتا ہوں، ایک دو آفرز بھی آئی ہیں۔ یوں کہو کہ میں قدامت پسند نہیں ہوں مگر آپ کا معاشرہ ایسا ہے۔ جو لوگ مجھے پسند کرتے ہیں، اگر اُن کے سامنے میں ایسا کردار ادا کروں کہ اُن کو لگے کہ احمد صاحب کو ایسا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے تھا تو یہ ایک بڑا نقصان ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’لال کبوتر‘ میں انھوں نے منفی کردار ادا کیا جس کے بارے میں بڑا مزے کا کسی نے لکھا کہ ’اتنا زیادہ شریف غنڈہ کبھی نہیں دیکھا۔‘
’ہو سکتا ہے کہ یہ کردار مجھ پر ججتے نہ ہوں، لیکن میرا خیال ہے کہ کبھی ایسا کوئی کردار آیا کہ مجھے لگا کہ میں اپنی حدود میں رہوں گا اور لوگوں کا دل نہیں ٹوٹے تو مجھے لگتا ہے کہ میں کروں گا۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ہے کہ پہلے ہم آپ کو اتنا آن سکرین نہیں دیکھ رہے تھے، دو سال کے دوران بہت دیکھ رہے ہیں؟
محمد احمد کہتے ہیں کہ ’کیک‘ کے بعد شاید وہ لوگوں کی نظروں میں آئیں۔
’عاصم عباسی کا کمال تھا کہ انھوں نے ’کیک‘ میں مجھے لیا تو شاید میں لوگوں کی نظروں میں آیا۔ ہم تقلید کرنا چاہتے ہیں لیڈر نہیں بننا چاہتے۔ جب عاصم نے رسک لیا تو بہت سے دوسرے لوگ بھی راضی ہو گئے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو اللہ بہت سے دروازے کھول دیتا ہے۔
’جب لکھنے (رائیٹنگ) کا سلسلہ ختم ہوا تو ایک مایوسی کا دور آیا۔ میں بہت ڈپریشن میں گیا، میں لکھتا رہا، لکھنے کی کوشش کرتا رہا، لوگوں سے لڑتا رہا کہ نہیں میں لکھ سکتا ہوں۔ یعنی ایسا وقت بھی آیا جب 17 برس بعد بھی لوگوں کو مجھے یہ یقین دلانا پڑتا تھا کہ میں لکھ سکتا ہوں۔ لیکن پھر وہ وقت آیا کہ مجھے (لکھنے کو) چھوڑنا ہی پڑا۔ مجھ سے اگر توقع کی جاتی کہ بلاوجہ لڑکیوں کو پٹائی لگاؤں، ریپ کرواؤں، وہ بھی ایسے کہ وہ سینسیشن بنے بجائے اس کے کہ اس سے لوگوں کو تکلیف پہنچے تو مجھ سے (اس طرح کی کہانیاں) نہیں لکھی گئیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں ان لوگوں کو نہیں کچھ کہوں گا، غلطی میری ہی ہے کہ میری سوچ نہیں گر سکی۔‘
لیکن کیا اب احمد کا مزید لکھنے کا ارادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے مہرین جبار کے لیے ایک فلم لکھی جس کا نام ہے ’میڈم جی‘ مگر یہ فلم کورونا کی نظر ہو گئی اور مہرین جس قسم کے موضوع اٹھاتی ہیں اس میں انھیں فلم کے لیے فنانسر ملنا مشکل ہے۔
ندیم بیگ کے لیے لکھے جانے والے ڈرامے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’وہ بولڈ ہے، ابھی اس کے بارے میں بحث چل رہی ہے کہ اسے کیسے کیا جائے۔ ایک اور سیریل ہے جس کی کچھ قسطیں ابھی باقی ہیں۔ قباحت اس میں بھی یہ تھی کہ عام لوگوں کو کیسے سمجھ آئے گی کہ ’بائے پولر‘ ہونا کیا ہوتا ہے۔ ایک چینل نے رسک لیا ہے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے کہا تھا کہ اب نہیں لکھوں گا، مگر اب ندیم بیگ ہمیشہ کہتے ہیں کہ یہ مت کہیں کہ نہیں لکھ سکتے، یہ کہیں کہ اس دور میں نہیں لکھ سکتے۔‘
پیمرا کے کردار پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پیمرا میرا نہیں خیال ہے کہ بہت غلط کہہ رہا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ کہتا ہے کہ ریپ ،جنسی تشدد نہ دکھائیں اور جادو ٹونے نہ دکھائیں اس میں کیا (غلط) بات ہے۔‘
اور جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ڈرامے جن پر پیمرا نے پابندی لگائی وہ تو بہت ریٹنگ لے رہے ہیں؟
محمد احمد کا موقف ہے کہ ’کیا ہی کہنے کی ضرورت ہے کہ ریٹنگ کون بناتا ہے۔ وہ اگر بدل سکیں تو انڈسٹری کی سوچ بدلیں، تین افراد کی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’تین لوگوں کی سوچ بدل دیں میں اُن کا نام نہیں لے سکتا کیونکہ مجھے اپنا مستقبل عزیز ہے۔ تین لوگ بنا شادی کے افیئرز، طلاق اور ریپ پر پھنسے ہوئے ہیں، ان تینوں کو بٹھا کر بات کرنی چاہیے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’کتنی احمقانہ بات ہے کہ آپ رائٹرز کو بلا کر ان سے بات کرتے ہیں۔ رائٹر کیا کر لیں گے وہ تو آج کل کے منشی ہیں۔ سب کے ساتھ پیٹ ہے، جو ان سے کہا جاتا ہے وہ لکھ دیتے ہیں۔ جو لکھواتے ہیں اگر آپ میں جرات ہے تو ان سے بات کریں۔‘
محمد احمد نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں اب انھیں کچھ عرصہ آف سکرین بھی جانا چاہیے۔
’ہر سیریل اور ہر اشتہار میں بیٹھا ہوا ہوں، وہی داڑھی وہی گنجا سر، کوئی تبدیلی تو نہیں لا سکتا۔ میں چاہوں گا کوئی لائٹ رول کروں جس میں لوگ ہنسیں، خوش ہوں۔‘
جاتے جاتے انھوں نے بتایا کہ ان کا ایک سیریل آ رہا ہے ’اولاد‘ جس میں وہ مرینہ خان کے ساتھ آ رہے ہیں اور اس میں انھیں مارا نہیں جائے گا۔ اور وہ لکھنے کو دوبارہ آزمانا چاہتے ہیں۔