عام طور پر پاکستانی ڈراموں میں ایسا کردار نہیں دکھایا جاتا جس میں کسی عورت کی پہلی، دوسری اور پھر تیسری شادی ہوتی ہو۔ گھسی پٹی محبت میں اپنے اس منفرد کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے اداکارہ رمشا خان کا کہنا تھا کہ اس قسم کا کردار انھوں نے پہلے کبھی ادا نہیں کیا اس لیے انھیں یہ مضبوط کردار بہت اچھا لگ رہا ہے اور ایسا کردار نبھانے پر انھیں خود پر فخر ہے۔
بی بی سی اردو کے لیے دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں رمشا خان کا کہنا تھا کہ جب اس ڈرامے کا سکرپٹ آیا تو وہ فوراً سے مان گئیں اور ان کے دماغ میں کوئی دوسرا خیال نہیں آیا کیونکہ وہ اس ڈرامے کا پیغام ناظرین تک پہنچانا چاہتی تھیں۔
’مجھے کہا گیا تھا کہ یہ ڈرامہ تجربے کے طور پر بنایا جا رہا ہے اور اس میں رسک ہے تو آپ سوچ لیں۔ میں نے کہا کر لیتی ہوں، کیونکہ آخر میں یہ ڈرامہ ایک مثبت پیغام ہی دے رہا ہے۔‘
رمشا کہتی ہیں ’ہمارے معاشرے میں کسی عورت کے دو یا تین شادیاں کرنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اس کے علاوہ یہ ڈرامہ ہمارے معاشرے کے دوسرے مسائل جن میں ہراسانی اور عورتوں کا باہر نکل کر کام کرنا وغیرہ شامل ہے، کو بھی اجاگر کر رہا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’سامعہ عورتوں کے دل کی آواز ہے۔ جب آپ کسی عجیب سی صورتحال میں الجھے ہوں تو عموماً آپ کے دماغ میں مختلف سوچیں چل رہی ہوتی ہیں لیکن سامعہ کے معاملے میں یہ سب اس کی زبان پر ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’سامعہ عورتوں کے دل کی آواز ہے۔ جب آپ کسی عجیب سی صورتحال میں الجھے ہوں تو عموماً آپ کے دماغ میں مختلف سوچیں چل رہی ہوتی ہیں لیکن سامعہ کے معاملے میں یہ سب اس کی زبان پر ہوتا ہے
جب رمشا سے پوچھا گیا کہ وہ کس حد تک تجرباتی کردار ادا کرنے یا رسک لینے کو تیار ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے تجرباتی کردار ادا کرنے یا رسک لینے میں کوئی مسئلہ نہیں تاہم میں چاہتی ہوں کہ تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے کردار نبھاؤں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ زیادہ بولڈ کردار نہیں کر سکتی اور چاہتی ہوں کہ ان کے ہر ڈرامے کے آخر میں لوگوں کو ایک مثبت پیغام ملے۔
کسی بھی کردار پر ناظرین کی جانب سے ملنے والے منفی ردِعمل کے متعلق رمشا کہتی ہیں کہ وہ اس چیز کو دل پر نہیں لیتیں۔
’اور جہاں تک گھسی پٹی محبت کی بات ہے تو وہ کوئی کمرشل ڈرامہ نہیں بلکہ سیٹائر ہے اس لیے مجھے ایسی کوئی توقع نہیں کہ یہ ڈرامہ سب کو سمجھ آئے گا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس ڈرامے کی ہر قسط میں پوشیدہ پیغامات ہیں ’جن کو سمجھ آ گئی، بہت اچھا۔ جنھیں نہیں آئی تو کوئی بات نہیں۔‘
رمشا کا کہنا تھا کہ انھیں منفی ردِعمل کے ساتھ ساتھ تعریفییں بھی سننے کو مل رہی ہیں اور پوری ٹیم کو پتا ہے کہ انھوں نے خون پسینہ بہا کر ایک اچھا ڈرامہ بنایا ہے۔
کسی کردار کو کرنے سے پہلے ناظرین کے ردِعمل اور منفی تنقید کو کتنا دماغ میں رکھتی ہیں؟
وہ کہتی ہیں ’سب سے پہلے میں اپنی اقدار کا جائزہ لیتی ہوں اور پھر سکرپٹ کا انتخاب کرتی ہوں اور سوشل میڈیا پر ردِعمل کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔ بس یہ میرے دل کی آواز ہوتی ہے۔ کوئی سکرپٹ اچھی لگی تو کر لیتی ہوں اور کوئی سکرپٹ نہ سمجھ آئے تو نہیں کرتی۔‘
رمشا کا کہنا تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر اتنی ایکٹو نہیں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ابھی تک سوشل میڈیا کو سمجھ نہیں پا رہیں ہیں۔
’یہ جو ریس ہے کہ آپ نے کچھ پوسٹ لگانی ہے، لوگوں کو اپ ڈیٹ کرنا ہے، مجھے یہ سب سمجھ نہیں آیا کیونکہ میں اپنی نجی زندگی کو سب کے سامنے نہیں لانا چاہتی۔ میں نجی زندگی ایسی ہے کہ میں گھر میں اپنے کمرے سے بھی نہیں نکلتی۔ مجھے بس اپنی ذات تک محدود رہنے کا شوق ہے۔‘
’ہر انڈسٹری میں ایسے لوگ ہیں جن کے کام کو پذیرائی نہیں ملتی‘
اس سوال کے جواب میں کہ کیا انھیں انڈسٹری میں کسی قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا، کے جواب میں رمشا خان نے کہا کہ میں چیزوں کو منفی نہیں لیتی۔
ان کا ماننا ہے کہ ان کی طرح ہر انڈسٹری میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے کام کو پذیرائی نہیں ملتی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ نظام ایسا ہی ہے اور ایسا ہی چلتا ہے۔ یہ سب اللہ پر ہے تو جو چیزیں ہو رہی ہیں میں انھیں بس قبول کیے جا رہی ہوں۔‘
رمشا نے مزید کہا کہ انڈسٹری میں لابی بھی ہے، ذاتی پسند اور ناپسند بھی ہے اور ایک چیز جو مجھے بہت لوگ کہتے ہیں کہ اپنے کانٹیکٹس(رابطے) بناؤ، نیٹ ورک بناؤ، لوگوں سے رابطے میں رہو، دوستیاں رکھو لیکن مجھ سے یہ سب نہیں ہوتا۔
’میں فلم کے لیے ابھی تیار نہیں‘
مستقبل میں اپنے کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے رمشا نے کہا وہ فلم کے لیے ابھی بالکل بھی تیار نہیں کیونکہ وہ ڈراموں میں اپنے کام کو بہترین کرنا چاہتی ہیں۔
اپنے اگلے مزاحیہ ڈرامے رانگ کام پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میرا اگلا پروجیکٹ زیادہ سنجیدہ نہیں بلکہ کامیڈی ہے، میں نے سوچا کہ اب بریک کے لیے ذرا کامیڈی کی جائے۔‘