’اچھی اور پیاری لڑکی کا کردار تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔ میں نے منفی کردار اس لیے چُنا تاکہ لوگوں کی داد سمیٹ سکوں۔ اپنی طرف سے اس کردار میں میں جتنی برائی ڈال سکتی تھی، میں نے ڈالی ہے۔ آگے دیکھنے والوں پر منحصر ہے کہ ان کو میری کارکردگی کیسی لگتی ہے۔‘
متعدد پراجیکٹس میں رومانوی کردار ادا کرنے کے بعد ارمینا رانا خان نے ’محبتیں چاہتیں‘ میں منفی کردار کرنے کو ترجیح دی ہے۔ ہم ٹی وی کے اس ڈرامے میں ان کا کردار ’تارا‘ شائقین کو بے حد پسند آ رہا ہے کیونکہ وہ ایک روایتی لڑکی کا نہیں بلکہ ایک ایسی عورت کا ہے جو ہر قیمت پر خود کو اور صرف خود کو خوش دیکھنا چاہتی ہے۔
بی بی سی اُردو کے لیے ایک خصوصی انٹرویو میں ارمینا رانا خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے تارا کے کردار کا انتخاب اس لیے کیا تاکہ ان کو کچھ نیا کرنے کو ملے۔ ان کے خیال میں اداکار وہی ہے جو اصل میں جیسا دکھتا ہے ویسا سکرین پر نظر نہیں آتا اور اپنے ہر کردار سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر آگے بڑھتا ہے۔
اداکارہ ارمینا رانا خان کا شمار پاکستان کی پرکشش ترین اداکاراؤں میں ہوتا ہے اور ’بن روئے‘، ’جانان‘ اور ’یلغار‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ کئی ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکی ہیں۔
بقول ارمینا ’محبتیں چاہتیں‘ سے پہلے انھیں سکرین پر دیکھ کر لوگوں کو لگتا تھا کہ وہ بہت معصوم، ملنسار اور اچھی طبیعت کی خاتون ہوں گی، لیکن اگر وہ سکرین پر بھی ویسی ہی نظر آتی رہتیں جیسا کہ وہ اصل زندگی میں ہیں، تو ایک وقت کے بعد لوگ بھی ان سے تنگ آ جاتے۔
ارمینا رانا خان کا ٹی وی پر آخری ڈرامہ ’دلدل‘ تھا جو سنہ 2018 کے آغاز میں ختم ہو گیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے گذشتہ سال ایئرفورس کی فلم ’شیردل‘ میں مرکزی کردار تو ادا کیا لیکن ٹی وی سے دور رہیں۔ تین سال بعد ٹی وی پر کم بیک کرنے کی کیا وجہ تھی، اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انھیں کوئی کردار ہی ایسا آفر نہیں ہوا جس کے لیے وہ انگلینڈ چھوڑ کر پاکستان آتیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں فلم سے بڑا میڈیم ٹی وی ہے جس سے دور رہنا اپنے مداحوں اور کیریئر دونوں کے ساتھ ناانصافی کرنے کے مترادف ہے۔ میری کوشش تھی کہ خواتین کے حقوق پر کوئی ڈرامہ کروں لیکن ہمارے ہاں ایسی سکرپٹس نہیں ہوتیں، اور اگر ہوتی ہیں تو اس کے لیے اداکاراؤں میں مقابلہ بہت سخت ہوتا ہے۔ پاکستان میں نہ ہونے کی وجہ سے میں اچھے کرداروں کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہوں۔‘
’جب اس ڈرامے کا سکرپٹ آیا تو اس نے مجھے اپنی طرف کھینچا۔ یہ اس رستے پر تو نہیں تھا جس کی مجھے تلاش تھی لیکن دوسروں کے مقابلے میں الگ تھا۔ یہ میرا پہلا گندا والا منفی کیرکٹر تھا جس کی ایک نہیں بلکہ بہت ساری تہیں ہیں۔ آپ اپنے کیرکٹرز کے ذریعے اپنے بارے میں بھی بہت کچھ جانتے ہیں، اور اس ڈرامے کے سیٹ پر بحیثیت اداکار اور انسان مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔‘
تارا بری ضرور ہے، لیکن اسے معاشرے نے بُرا بنایا!
ارمینا رانا خان کا کہنا ہے کہ تارا کے کردار میں اداکاری کا جو مارجن ہے وہ انھیں بہت کم کرداروں میں ملا ہے، اس سے انھیں یہ بھی پتا چلا کہ معاشرے میں اس قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہر قیمت پر ہر چیز چاہتے ہیں۔
’اس کردار کو جب آپ کھولتے ہیں تو اس کی ہر تہہ کے نیچے ایک نئی کہانی، ایک نئی وجہ ملتی ہے جس سے شائقین کو پتہ چلے گا کہ تارا ایسی کیوں ہے۔ کوئی بھی انسان اچھا یا برا پیدا نہیں ہوتا، معاشرہ اسے ایسا بنا دیتا ہے۔ تارا کا کردار منفی ضرور ہے مگر اس کو ایسا بنایا گیا ہے، میں سمیرا فضل کو داد دیتی ہوں کہ انھوں نے اتنا مزے کا کردار میرے لیے لکھا۔‘
ارمینا کہتی ہیں کہ جب ’محبتیں چاہتیں‘ کی آخری قسط آنے والی ہو گی تو اس سے پہلے وہ ایک ویڈیو یوٹیوب پر لگائیں گی جس میں اپنے تجربات کا ذکر کریں گے اور یہ بھی بتائیں گی کہ کس طرح اس ڈرامے سے انھوں نے وہ بینچ مارک حاصل کیے جن کی انھیں تلاش تھی۔
ترک اداکاروں کے ساتھ شارٹ فلم ’سنیپ شاٹ‘ سب کو حیران کر دے گی!
ارمینا صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پاکستان سے باہر بھی کئی شارٹ فلمز میں کام کر چکی ہیں۔
’سنیپ شاٹ‘ نامی ان کی فلم جو ترکی کے شہر استنبول میں شوٹ ہوئی ہے اس وقت تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اداکارہ کا کہنا ہے کہ ’سنیپ شاٹ‘ بنانے کی سب سے بڑی وجہ اس کہانی کو سامنے لانا تھا جو پاکستان میں بننا تو چاہیے، لیکن بنتی نہیں۔ اس فلم کے ذریعے وہ اپنے مداحوں کو حیران کر دیں گی۔
’بہت عرصے سے میری خواہش تھی کہ وہ کہانیاں سناؤں جو مجھے سنانے کو نہیں مل رہیں۔ ’محبتیں چاہتیں‘ کے علاوہ میرے پاس کوئی ایسی آفر نہیں جس میں اداکاری کا مارجن ہو، اس لیے جب ایک چیز سیدھی طرح سے نہیں آ رہی تو دوسری طرف سے جانا بہتر ہوتا ہے، اور اسی وجہ سے میں نے انگلینڈ میں اپنا پروڈکشن ہاؤس سیٹ اپ کیا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’شروع شروع میں میری کوشش ہو گی کہ ایسے کردار ادا کروں گی جو میرے دل کو اچھے لگیں لیکن آگے جا کر میں نئے ٹیلنٹ کو متعارف کروانے کے بارے میں سوچ رہی ہوں تاکہ پاکستان میں جو اتنا ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے، اسے کچھ کرنے کے لیے ایک ایونیو تو مل سکے۔‘
اپنی پہلی ہوم پروڈکشن ’سنیپ شاٹ‘ کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ترکی میں شوٹ کرنا محض اتفاق تھا۔
’ہم گذشتہ سال دسمبر میں فلم کی شوٹ پلان کر رہے تھے لیکن کورونا کی وجہ سے سب کچھ تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔ اس دوران ارطغرل غازی بھی پاکستان میں کافی مقبول ہو گیا اور ’محبتیں چاہتیں‘ بھی رُک گیا تھا۔ ہم اللہ کا نام لے کر اس سال اگست میں ترکی گئے وہاں کے چند ایکٹرز کو کاسٹ کیا اور ’سنیپ شاٹ‘ کی شوٹ مکمل کی۔‘
’اس فلم میں حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ اس کی کہانی لاک ڈاؤن کے گرد گھومتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کووڈ 19 سے لوگوں کے ذہنوں پر کیا اثر پڑا۔ فلم میں ایک لڑکا اور لڑکی ہونے کے باوجود اس فلم میں رومانس نام کی کوئی چیز نہیں، اس تجربے سے ہم یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ لڑکا لڑکی دوست بھی ہو سکتے ہیں۔‘
انگلینڈ میں اپنی سماجی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارمینا کا کہنا تھا نے کہا کہ وہ یہ سب روح کی تسکین کے لیے کرتی ہیں۔
’اپنے لیے تو سب جیتے ہیں دوسروں کے لیے بہت کم جیتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اگر آپ دنیا میں کوئی اچھا کا م کرتے ہیں تو اللہ تعالی آپ کو اس کا دس گنا ثواب اسی دنیا میں واپس کر دیتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ وہ جس سوسائٹی میں رہتی ہیں وہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ کووڈ 19 کی وجہ سے ہمیں مذہب کی تفریق کیے بغیر سب کی مدد کرنا چاہیے۔
’میرے شوہر فیصل رضا خان کا تعلق ایک کشمیری گھرانے سے ہے اور عملی سیاست میں بھی ان کا عمل دخل ہے۔ ہم دونوں سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس ایک موقع ہے کسی کی مدد کرنے کے لیے تو ہمیں اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو۔ ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ کورونا جیسی مہلک بیماری کے دنوں میں بھی ہم دوسروں کی مدد کرنے کے قابل ہیں۔‘
دیگر اداکاراؤں کی طرح ارمینا رانا خان بھی سوشل میڈیا پر کافی ایکٹیو نظر آتی ہیں لیکن اپنے ڈراموں اور فیشن کی جگہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان کا نام روشن کیا جائے۔ اس کی وجہ سے انھیں کبھی انڈین صارفین تو کبھی پاکستانی ٹرولز تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب وہ ان لوگوں کے کمنٹس کی وجہ سے اپنا موڈ خراب نہیں کرتیں۔
’شروع شروع میں جب میرے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا تھا تو مجھے بہت دکھ ہوتا تھا، لیکن اب نہیں۔ گذشتہ دنوں کسی نے مجھ سے کہا کہ آپ ارطغرل غازی میں کام کرنے والے اداکار کو ویلکم کرنے ایئرپورٹ جائیں جس پر میں نے انھیں جواب دیا کہ میں اپنا کام کرنے آئی ہوں اور وہ اپنا۔ اس بات پر لوگوں نے مجھے ناجانے کیا کیا کہہ دیا، حالانکہ احسن خان کے بعد میں وہ پہلی اداکارہ تھی جس نے پاکستانیوں سے گزارش کی تھی کہ ترک اداکاروں کو ٹرول نہ کریں۔‘
’ان لوگوں نے بغیر یہ جانے کہ میں پاکستان کے لیے کہاں کہاں کھڑی ہوئی ہوں، ایسی ایسی باتیں کیں جن کا نہ تو مجھے اندازہ تھا اور نہ جن سے میرا کوئی تعلق۔ پاکستان کے لیے جو بھی کیا اپنے دل سے کیا، کسی کے کہنے پر نہیں کیا تو پھر پاکستان کے خلاف جانے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں بھی تو باہر سے آ کر کام کرتی ہوں، تو میں کسی اور ملک سے آئے ہوئے اداکار کے خلاف کیسے ہو سکتی ہوں۔‘
جاتے جاتے ارمینا کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے اور بہت سارے پرانے واقعات سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔
’لوگوں کو اگر سوشل میڈیا پر جواب نہ دیا جائے تو اس سے قیامت نہیں آ جائے گی، اب میں لوگوں کو جواب نہیں دیتی ہوں اور اس لیے میری زندگی پرسکون ہے، یہ بھی ایک آرٹ ہے جس کو ماسٹر کرنے میں مجھے وقت لگا، لیکن اب کر لیا ہے۔‘